تعارف
ایگریکلچرل انجینئرنگ ڈویژن (AED)کا قیام 2014ء میں عمل میں لایا گیا تھااس سے قبل زرعی آلات ومشینری کی ترقی اور ترویج کی ذمہ داری علوم نباتات ڈویژن کے سپرد تھی۔حالیہ دور میں زراعت میں جدید مشینری اور آلات کی روز افزوں اہمیت اور استعمال کے پیش نظر کونسل نے ایک الگ زرعی انجینئرنگ ڈویژن کے قیام کا فیصلہ کیا جو زرعی مشینری و آلات کی تیاری وترقی اور ترسیل، فصل کی برداشت کے عمل میں سہولت، فی ایکٹر پیداوار کو بڑھانا اور معیار کو بہتر بنانے کے لئے آلات کاری،بعداز برداشت اور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز جیسے موضوعات پردرج ذیل مقاصدکے حصول کے لیے مصروف عمل ہے:
- جدیدزرعی آلات و مشینری کی تیاری و ترقی کے لیے تحقیق و تجربات اور کاشت کاروں تک فروغ و ترسیل کا اہتمام
- موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں درپیش خدشات کے حل کے لیے قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز پر کام
- فصلوں کےپیداواری معیارکو بڑھانے، فصل کی برداشت کے جدید طریقوں کو متعارف کرانا اور فوڈ انجینئرنگ کو فروغ دینا۔
- زرعی انجینئرنگ کے شعبے میں جدیدمشینری کی تحقیق و ترقی سے حاصل شدہ نتائج کے بھر پور استعمال کو ممکن بنانے کے لئے اقدامات کرنا ۔
- تحقیق شدہ ٹیکنالوجیز کو زرعی انجینئرنگ کے میدان میں فروغ دینے کے لئے ملکی اور غیر ملکی اداروں سے تعاون حاصل کرنا۔
- زرعی انجینئرنگ اور اس سے وابستہ صنعتی شعبے میں کام کرنے والی اعلٰی درجے کی افرادی قوت کے لئے سائنسی بنیادوں پر تربیت کا اہتمام کرنا ۔
- زرعی انجینئرنگ میں جدید ترقی و تحقیق سے حاصل نئی معلومات اور نتائج کی عوام میں آگاہی۔
نظامات :
ان بیان کردہ مقاصد پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئےڈویژن کو درج ذیل تین نظامات (Directorates)میں تقسیم کیا گیا ہے۔
- 1 ایگریکلچرل میکانائزیشن (Agricultural Mechanization)
- 2 پوسٹ ہاروسٹ اور فوڈ انجینئرنگ(Post Harvest ; Food Engineering)
- 3 رینیو ایبل انرجی ٹیکنالوجیز(Renewable Energy Technologies)
زرعی مشین کاری(ایگریکلچرل میکانائزیشن )کےاہم اہداف یہ ہیں:
- زمین اورکاشت کارکی صلاحیت میں اضافہ کرنا۔
- زیادہ سے زیادہ رقبہ کوزیر کاشت لانا۔
- توانائی اور دیگر ذرائع جیسا کہ پانی،کھاد وغیرہ کےاستعمال میں بچت کرنا۔
- ز رعی پیداوار کو مستحکم کرنا۔
- زرعی مشینری کو استعمال کرنے والے عملے کے تحفظ اور آسانی کےلیے اقدامات کو بہتر کرنا۔
- زراعت کو منافع بخش کاروبار بنانا۔
- قدرتی ماحول کی حفاظت کوممکن حد تک یقینی بنانا ۔
نمایاں کامیابیاں:
مقامی اور عالمی سطح پر ہونے والی تحقیق اور تجربات کو مقامی ضروریات اور ماحول کے مطابق اختیار کرتے ہوئے زرعی مشینری بنانے والی صنعتوں کے تعاون سے جدید زرعی آلات ڈیزائن کیے جاتے ہیں یاپہلے سے موجود کسی مشینری میں کوئی مفیدجدت کی جاتی ہے۔مسائل کے حل اور سہولیات کے لیے تحقیق و ترقی کا یہ عمل مسلسل جاری ہے۔کسی بھی مشین اور آلات کی کارکردگی کو کھیتوں میں تجرباتی بنیادوں پر جانچنے کے بعدعام صارفین اور کاشتکاروں میں متعارف کرایا جاتاہے۔کونسل کے متعارف کردہ مشینری و آلات اورجدید ٹیکنالوجیزکے بھر پور استعمال سے مقامی کسان مستفید ہورہے ہیں۔ ان آلات و ٹیکنالوجیز کی اہمیت اور افادیت کو واضح کرنے کے لیے کچھ مثالوں کا ذکر ضروری ہے کہ کس طرح کسانوں کے روزگار پر مثبت اثرات پڑے ہیں:
1 ۔ ریپر ونڈروئر (Reaper – Windrower)
گندم پاکستان میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل ہے جو کہ لوگوں کی روزمرہ خوراک کا بنیادی جزو ہے۔ گندم کی کٹائی روایتی طورپر ہاتھ سے کی جاتی ہے جوکہ ایک بہت ہی مشقت آمیز اوروقت طلب کام ہے ۔ان وجوہات کی بنا پر گندم کی کٹائی عام طور پر قدرے دیر تک جاری رہتی ہے جس سے اس کی پیداوار اورمعیار دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ اسں مسئلے کے حل کے لئے1980ء میں ٹریکٹر کے آگے نصب ہونے والا ریپر ونڈروئر ڈیزائن/تخلیق کرنے کے بعدکھیتوں میں اس کا کامیاب تجربہ کیا گیا اور پھر بھرپور نمائش کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔ انجینئرز کی انتھک محنت اور تحقیق کے نتیجہ میں اس مشین کی کارکردگی حیرت انگیزتھی ۔ اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے کچھ مقامی زرعی مشینری بنانے والے کارخانوں نے مشین کو تجارتی بنیادوں پر تیار کر کے فروخت کرنا شروع کیا۔ یہ مشین فصل کو کاٹ کرایک طرف ایک قطار کی صورت میں پھینکتی ہے۔ گندم کی کٹائی کے علاوہ یہ مشین دھان کو کاٹنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ دستی اور یکجا کٹائی (کمبائنڈ ہارویسٹنگ) کے درمیان ایک انٹرمیڈیٹ ٹیکنالوجی ہے۔ اس سے وقت اورمشقت و مزدوری دونوں کی بچت ہوتی ہے۔ اس مشین کی افادیت کمبائن ہارویسٹر کے مقابلے میں زیادہ اس لئے ہےکہ یہ مویشوں کی خوراک بھوسہ بچانے کے لئے ایک اہم ٹیکنالوجی ہے۔ اس وقت اس مشین کے تقریباً ـــــ45000ہزار سے زائد یونٹس ملک بھر کے کسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔
2۔ زیرو ٹِل ڈرل (Zero Till Drill)
تحفظ زراعت (کنزرویشن ایگریکلچر)زمین کو بہتر بنانے کا عمل ہے جس کے ذریعے زمین کی تیاری میں اورقدرتی طور پر زمینوں کے کٹائو کی وجہ سے موجود اثرات کو کم کیا جاتا ہے۔عام طور پرگندم اور چاول کی کاشت کے لئےنئے سرے (زیرو لیول) سے زمین کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف توانائی کے ضیاع کا باعث بنتا ہے بلکہ اس عمل میں بہت وقت درکار ہوتا ہے جسکی وجہ سےفصلوں کی کاشت میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں باسمتی چاول کی کاشت کی جاتی ہے۔ گندم کی تاخیری کاشت کی وجہ سے اس کی پیداوار میں خاصی کمی ہو جاتی ہے ۔ اس مسلئہ کے حل کے لیے زیرو ٹِل ڈرل کو ڈیزائن کیا گیا پھر اسے تیار کر کے مقامی زرعی مشنری بنانے والی صنعتوں کے ذریعے صارفین تک کامیابی سے متعارف کرایا گیاہے۔ اس وقت 25سے زائد مشینری بنانے والی فیکٹریاں/صنعتیں اس ڈرل کو تیار کرکے فروخت کر رہی ہیں اور تقریباً 6ہزار سے زیادہ مشینیں اس وقت ملک بھر کے کسانوں کے زیر استعمال ہیں۔
3۔ فرٹیلائزر بینڈ پلیسمنٹ ڈِرل برائے گندم(Fertilizer Band Placement Drill for Wheat)
گندم کی بوائی میں چھٹہ کے ذریعے فاسفیٹ کھادوں کا استعمال ایک عام رائج عمل ہے جس کے ذریعے تقریباً15سے25فیصد فاسفیٹ کھاد فصل تک پہنچتی ہے۔ عام طور پر بیج کے ساتھ کھاد ڈالنے والی ڈرلز پاکستان میں استعمال ہوتی ہیں جس کے ذریعے یا تو کھاد بیج سے دور گرتی ہے یا پھر بیج کے ساتھ ہی زمین میں چلی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں کھاد ضائع ہوتی ہے جب کہ دوسری میں زیادتی کی وجہ سے بیج کا اگاو متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیداوارپرمنفی اثر پڑتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے فرٹیلائزر بینڈ پلیسمنٹ ڈِرل برائے گندم کو ڈیزائن کیا گیا ہےجسےتجربہ کرنے کےبعد ر وایتی طور پر استعمال ہونے والی بیج کی ڈرل کے ساتھ جوڑا گیا۔ بعد میں اس نئے نمونے کو مقامی سطح پر زرعی آلات بنانے والی صنعتوں کے ذریعے سے متعارف کرایا گیا۔ اس وقت اس ڈرل کو دس سے زیادہ فیکٹریاں بنا کر فروخت کر رہی ہیں۔
4۔ ویٹ سٹرا چاپر(Wheat Straw Chopper)
پاکستان میں گندم کی بروقت برداشت کے لئے کمبائن ہارویسٹرز کی مقبولیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے تاہم یہ مشین صرف گندم کے دانے سے غرض رکھتی ہے کیونکہ یہ کافی مقدار میں بھوسہ کھیت میں چھوڑ دیتی ہے جو ضائع ہوجاتا ہے۔ عموماً کسان اس طرح کے سٹاک (نارڑھ) اگلی فصل کی کاشت کے وقت جلا دیتے ہیں۔ جس سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بعض اوقات دوسری فصلوں تک آگ پھیل ٖجانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کسانوں کے اس مسئلے کے حل کے لئے ایک غیر ملکی ٹیکنالوجی کومقامی ضروریات کے مطابق ڈیزائن کرنے کے بعدتجرباتی طور پر استعمال کیا گیا ۔تسلی بخش نتائج حاصل ہونے پر مقامی زرعی صنعتوں کے ذریعے اسے بھر پور طریقے سے متعارف کرایا گیا۔ اس مشین کی وجہ سے کسانوں کو نہ صرف جانوروں کو کھلانے کے لئے سال بھر کا بھوسہ ملنے لگا بلکہ ضرورت سے زائد بھوسہ کو بیچنے سے معقول آمدنی کا حصول بھی ممکن ہوا جوکہ کسانوں کی دیرینہ مانگ تھی ۔اس وقت 15سے زیادہ صنعتی اداروں میں اس مشین کو بنایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت5000سے زائد مشینیں دستیاب ہیں۔
5۔ مونگ پھلی اکھاڑنے والی مشین (Groundnut Digger)
1980کی دہائی میں مونگ پھلی کی فصل عام طور پر ہاتھوںسےاکھاڑی جاتی تھی کیونکہ اس وقت کوئی باقاعدہ مشین دستیاب نہیں تھی۔ یہ ایک نہایت مشقت آمیز اور وقت طلب کام ہوتا ہے۔ اس تھکا دینے والے کام میں عام طورپر کسانوں کےپورےخاندان کوشریک ہونا پڑتا ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ طریقہ مونگ پھلی کی فی ایکٹر پیداوار میں کمی کی بڑی وجہ بھی ہے۔ان مسائل کے حل اور کاشتکاروں کی سہولت کے لیے ٹریکٹر سے جوڑ کر چلائی جانے والی یہ مشین ڈیزائن کی گئی ہے۔ زمین کھود کر مونگ پھلی نکالنے والی اس مشین کو مقامی مشینری ساز فیکٹریوں کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔ اس وقت زرعی آلات بنانے والی 5صنعتی یونٹس میں تیار کی جا رہی ہے اور 2 ہزار سے زیادہ مشینیں مونگ پھلی پیدا کرنے والے کسانوں کے زیر استعمال ہیں۔
6۔ مونگ پھلی کا تھریشر(Groundnut Thresher)
مونگ پھلی بارانی علاقوں خصوصاً پوٹھوار ریجن میں اہم اور نقد آور فصل ہے۔ روایتی طرز پر اس فصل کی برداشت اور گہائی کا عمل مزدور خاندان کے لئے محنت طلب، وقت کا ضیاع اور تھکا دینے والا کام تھا۔ اس سخت مشقت کے باوجود بھی فی ایکٹر پیداوار کم ہوتی تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے ایک تھریشرمشین ڈیزائن کر کےکھیتوں میں تجرباتی طورپر استعمال میں لائی گئی ۔ اس مشین کی کارکردگی بہترین پائی گئی ۔ یہ ٹریکٹر کے ذریعے چلنے والی مشین ہے جو کہ مونگ پھلی کی گہائی/جھاڑ کے لئے موزوں ہے۔ اس وقت زرعی مشینری ودیگر آلات بنانے والے کارخانوں میں اسکی تیاری کی جا رہی ہے اور 2 ہزار سے زیادہ مشینیں ملک بھر میں دستیاب ہیں۔
7۔ چاول کا تھریشر(Rice Thresher)
چاول ان فصلات میں سے ایک اہم فصل ہے جو کہ ملک کے چاروں صوبوں میں کاشت کی جاتی ہیں۔ قدیم طریقہ کاشت کے مطابق مونجی کی گہائی/جھاڑ بھی نہ صرف کافی مشقت طلب اور وقت کا بے جا ضیاع ہے بلکہ اس عام رائج طریقے سے چاول کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چاول کی کٹی فصل کو خراب موسم کا خطرہ بھی رہتا ہے کیونکہ اس کا سیزن2 سے 3ماہ تک چلتا ہے خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں ۔ان مسائل سے نمٹنے کے لئے اعلی معیارکی تھریشر ڈیزائن کرنے کے بعد مقامی زرعی آلات ساز کارخانوں میں مینو فیکچرنگ کرائی گئی اور اب دس سے زائد فیکٹریوں میں تجارتی بنیادوں پرتیارکی جا رہی ہے اور 6ہزار سے زائد مشینیں اس وقت کسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔
8۔ شمسی کھجور خشک کار(Solar Dates Dryers)
پاکستان کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ بین الاقوامی منڈیوں میں اس کا حصہ 6سے8 فیصد ہے اور یہ شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ آب و ہوا کی خراب صورتحال کھجور کی فصل کو مناسب طرح سے پکنے نہیں دیتی اور عام طور پر فصل کی برداشت کے لیے موزوں ترین نمی کا تناسب( 18سے 20 فیصد) حاصل نہیں ہو پاتا۔ کھجور کو درختوں پرسے عموماً اس وقت اتاراجاتا ہے جب یہ ڈوکا کی سٹیج پر ہوتی ہے۔ کھجور کی پیداوار کو محفوظ کرنے کا عمل کافی محنت اور وقت طلب ہوتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباًپانچ ارب روپے مالیت کی کھجور ہر سال ضائع ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے دو طرح کے کھجور خشک کرنے والے طریقے اپنائے گئے ہیں۔جن میں سے ایک شمسی اور گیس سے چلنے والے خشک کار(Solar-Cum-Gas Fired Dryer) او ردوسرا شمسی سرنگ خشک کار(Solar Tunnel Dryer )ہے۔ ان دونوں تیکنالوجیز کو مقامی زرعی صنعت کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔ ان کے استعمال سےتین سے چار دنوں میں کھجوریں پک جاتی ہیں جبکہ عام طریقے سے آٹھ دن لگ جاتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف کھجور کا معیار بہتر ہوتاہے بلکہ منافع بھی زیادہ حاصل ہوتا ہے جس سے دور دراز کے علاقوں میں کھجور کی کاشت کرنے والے کسانوں کے روزگار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
9۔ زیتون کا تیل نکالنے والی مشین(Olive Oil Extraction Machine)
زیتون کی کاشت پاکستان میں زیادہ پرانی نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں حکومت پاکستان نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے جس کے نتیجےمیں ملک میں زیتون کی کاشت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ملک میں زیتون کی بڑھتی ہوی پیداوارسےزیادہ سے زیادہ فوائدکےحصول کے لیے اے بی ای آئی( ایف ایم آئی ) نے2009ء میں اقدامات شروع کیے۔ پہلے اقدام کے طور پرزیتون کا تیل نکالنے والی( 50 کلو فی گھنٹہ پھل کی پروسیسنگ کی صلا حیت والی) مشین جون 2009ء میں اٹلی سے درآمد کی اور عملی تجربات کیے گئے۔ ان تجربات اور عملی مظاہروں کے نتائج کی بنیاد پر ایک مقامی زرعی مشینری بنانے والی کمپنی میسرز ٹیکنالوجی انٹرنیشنل فیصل آباد سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیےگئے۔ انسٹی ٹیوٹ کے انجنیئروں کے زیر نگرانی ڈیزائن کے مطابق ایک پروٹوٹائپ مشین تیار کی گی ۔ اس مشین کی تفصیلی جانچ پٹرتال اورکھیتوں میں کار کردگی کو مکمل طور پر پرکھا گیا۔ مشین کی کارکردگی کے نتائج تسلی بخش تھے۔ مقامی طور پر تیار کردہ اس مشین کا عملی مظاہرہ زرعی مشینری کی صنعت اور زراعت کے دیگر وابستگان کی مدد سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے ز یتون کی کاشت والے علاقوں میں کیا گیاجس سے زیتون کے کاشتکاروں کو مشین کے بارے میں آگاہی ہوئی۔ امید کی جاتی ہے کہ اس مشین کے استعمال سے کاشتکار بھائیوں کو بھرپور فائدہ ہو گا۔ مقامی خوردنی تیل کی پیداوارمیں اضافہ ہو گا اورزیتون کی کاشت کے علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
10۔ گنے کا رس نکالنے والی مشین (A New Farm-Level Sugarcane Crusher)
روایتی بیلنہ میں کرشنگ کی صلاحیت انتہائی کم ہوتی ہے جس کے باعث گنے کے رس کی خاصی مقدار پھوک میں ہی رہ جاتی ہے۔ ان مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک نیا متحرک گنا کرشر تیار کرنے کے بعد اس کی کارکردگی کوکھیتوںمیں پرکھا گیا۔ مشین کی کارکردگی کے نتائج یعنی کرشنگ کی صلاحیت، ایندھن کی کھپت، رولرز کی رفتاراوررس کااوسط حصول: 3-4ٹن فی گھنٹہ، 4 لٹرفی گھنٹہ، 16 چکر فی گھنٹہ اور 63.5 فی صد با التر تیب پائے گئے۔ مشین کی کارکردگی کے ابتدائی نتائج اطمینان بخش ہیں تاہم مشین کے مختلف پیرامیٹرز کو معیاری سطح پرلانے کے لئے مشین کی کارکردگی کی مکمل جانچ پڑتال اور انجن کی رفتار، رولرز کے چکر، فیڈ کی شرح اور رس کی زیادہ سے زیادہ شرح حاصل کرنے کے لئے رولرز کی درمیانی کلیرنس وغیرہ کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
11۔ ووڈ چپر شریڈر ٍWood Chipper Shredder) )
ایک ووڈ چپر شیریڈر مشین چین سےدرآمد کرنے کے بعد مقامی ضروریات کے مطابق اس کی افادیت کو جانچنے کے لیے ڈیرہ غازی خان میں استعمال میں لایا گیا۔ مشین کی کارکردگی تین سے چار انچ موٹی صاف لکٹری کو پراسس کرنے کے لئے اچھی تھی مگر درختوں سے تراش خراش کی ہوئی پتوں والی فا لتو لکٹری کی پراسسنگ کے لئے زیادہ اچھی نہیں تھی۔ان مشاہدات اوردیگر مقامی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے پروٹوٹائپ ووڈ چپر شیریڈر یونٹ تیارکیا گیا ۔ مقامی زرعی صنعت کی مدد سےاس مشین کی تیاری کروائی گئی۔ اس مقامی مشین کی ابتدائی کارکردگی کی جانچ پٹرتال اے بی ای آئی کی تجربہ گاہ میں کرنے کے بعد اس کی تفصیلی کارکردگی کو پرکھنے کے لیے این اے آر سی میں عملی تجربہ کیا گیا ۔مشین کی کارکردگی کے نتائج یعنی اوسط پراسسنگ صلاحیت، کارکردگی، ایندھن کی کھپت اور لیور کی ضرورت : 953 کلوفی گھنٹہ، 2.84 لٹرفی گھنٹہ، 16 چکر فی گھنٹہ اور 93 فی صد باالترتیب پائے گئے۔ان نتائج نے ظاہرکیا کہ مجموعی طورپر مقامی مشین کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ یہ مشین کسانوں کو ان کی زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرنے میں مدد دےگی اورپراسس شدہ مٹیریل کی بھٹہ مالکان اور گھریلوصارفین کو فروخت سے آمدنی میں اضافہ ہو گا۔
انسٹی ٹیوٹ/ادارے:
ایگریکلچرل انجینئرنگ ڈویژن (AED)سے منسلک انسٹی ٹیوٹ/ادارہ
جدید زرعی مشینری وآلات پر تحقیق اور ان کی تیا ری کے حوالے سےاس ڈویژن کے تحت قومی زرعی تحقیقا تی مرکز اسلام آباد میں واقع زرعی وحیاتیاتی انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ (Agricultural ; Biological Engineering Institute – ABEI) کا کردار نہا یت اہم ہےجہا ں ہما رے حالات و ضروریات کے موافق مقامی طور پر اختیار کی گئی ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لاتے ہوئےجدید زرعی مشینری وآلات کی ڈیزائنگ اورتیاری کی جاتی ہے۔ یہ زرعی وحیاتیاتی انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ جو کہ ماضی میں فارم مشینر ی انسٹی ٹیوٹ کے نام سے موسوم تھا، 1980 ء کی دہائی میں قائم کیا گیا ۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا بنیادی مقصددیگر تحقیقی اداروں اور عوام کےباہمی تعاون سے زراعت کےشعبے میں جدت کو فروغ دینے کے لیے جدید مشنری و آلات کی ڈیزائنگ و تحقیق، تیاری، کارکردگی کی جانچ پڑتال اور تجارتی لحاظ سے مفید ٹیکنالوجیز کو متعارف کرانے کےلیے کاوشیں کرنا ہے۔
اس ادارے کو مزید درج ذیل پروگرامز میں تقسیم کیا گیا ہے :
- انرجی سسٹمز انجینئرنگ پروگرام
- بائیو پراسس انجینئرنگ پروگرام
- مشینری سسٹمز انجینئرنگ پروگرام
ممبر زرعی انجینئرنگ ڈویژن:
ڈاکٹر ندیم امجد
parc.nadeem@gmail.com