تعارف
قومی زرعی تحقیقاتی مرکز (NARC)اسلام آباد 1984ء میں قائم کیا گیا ۔یہ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آرسی)کے زیر انتظام زرعی تحقیق کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔۔جو کہ تقریباً1400ایکڑ رقبے پر محیط اسلام آباد سے چھ کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے ۔تجرباتی کھیتوں ، تجربہ گاہوں ،سبز گھروں ،جین بینک ، کتب خانہ ،دستاویزات،سماعت گاہ،زرعی آلات و مشینری اور عمومی لیب کے سامان کی مرمت کے لیے ورکشاپس ، ہاسٹل ، کیفے ٹیریا ، سمعی و بصری اسٹوڈیوپر مشتمل یہ تحقیقی مرکز انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔مختلف وفاقی اورصوبائی تحقیقی اداروں اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والےسائنسدانوں و ماہرین کو اپنی تحقیقی سرگرمیوں کو اشتراک مشاورت کے ساتھ انجام دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کر تا ہے تاکہ تحقیق کے شعبہ میں غیر ضروری یکسانیت /تکرار سے بچا جاسکے اور ایسی تحقیق جو ملکی سطح پر درکار ہیں وہ صوبائی اداروں کی بجائے قومی مرکز میں کی جائیں۔بین الاقوامی اور غیر ملکی زرعی تحقیق سے حاصل ہونے والی نئی ٹیکنالوجیز کو ملکی ماحول اور ضروریات کے موافق بنانے کے لیے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز سرگرم عمل ہے خصوصاًزرعی آلات ،سازو سامان ،الیکٹران مائیکروسکوپ ، الٹرا سنٹری فیوج او دیگراعلیٰ زرعی تکنیکی و تجرباتی آلات و سہولیات کی موجودگی قومی زرعی تحقیقاتی مرکز کا اعزاز ہے جس کے لیے سائنسی ماہرین اور پیشہ وار افرادی قوت موجود ہے۔
پس منظر :
1968 اور 1973 میں ملک میں زرعی تحقیقی نظام کا مکمل جائزہ کے بعد پاکستان-امریکن مشترک ریویو ٹیم نےزرعی تحقیقی کونسل (اے آرسی) ، جو باالترتیب 1948 اور 1951 میں قائم ہونے والی خوراک و زراعت کمیٹی اور خوراک و زراعت کونسل آف پاکستان کا جانشین ادارہ تھا، کا دائرہِ کار بڑھانے اور اسے بنیادی تحقیق قومی سطح پر مربوط کرنے کی ذمہ داری تفویض کرنے کی سفارشات پیش کیں۔ اس مقصد کے لیے اسلام آباد میں پاکستان زرعی تحقیقاتی مرکز کے نام سےایک قومی سطح کے تحقیقی مرکز کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جو بعد میں قومی زرعی تحقیقاتی مرکز میں بدل دیا گیا۔قومی زرعی تحقیقاتی مرکز کے قیام پر کام کا آغاز 1975 میں ہوا تاہم اس کی تعمیر کا باضابطہ سنگ بنیاد مارچ 1980 میں رکھا گیااور باالآخر مارچ 1984 میں صدرِ پاکستان نے اس مرکز کا افتتاح کیا۔
تنظیمی ڈھانچہ
![]() |
ڈائریکٹر جنرل قومی زرعی تحقیقاتی مرکز اسلام آباد، | ڈاکٹرغلام محمد علی drgmali5@gmail.com |
---|
مطمحِ نظر
مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ حکمتِ عملی کے کلیدی عناصر درج ذیل ہیں:
• ہمہ گیرو تفصیلی تحقیقی منصوبہ بندی اور ترجیحات
• تحقیق کے لیے شراکتی نقطہ نظر کا فروغ
• بائیو ٹیکنالوجی، باغبانی، گلہ بانی، ماہی پروری اور زراعتی-جنگل بانی پر توجہ مرکوزکرکے زراعت کو متنوع بنانا
• بعد از برداشت ٹیکنالوجی (پوسٹ ہارویسٹ)، قدر افزونی (ویلیو ایڈیشن) اور زرعی کاروبار
• ماحول دوست اور تحفظِ وسائل ٹیکنالوجیوں کا فروغ
• قدرتی وسائل کا موثر استعمال اور بچت
• انسانی وسائل کی ترقی
• تحقیقی انتظام میں عدم مرکزیت لانا
• تحقیقی سہولیات کو تقویت دینا
دائرہ کار (مینڈیٹ)
درج ذیل عنوانات پر تزویراتی تحقیق :
• قومی و صوبائی ترجیحات
• زراعت میں پیش آمدہ مسائل /چیلنجز
ذیل کے موضوعات پر ایکسپلوریٹری تحقیق:
• نئی اجناس
• صوبائی زرعی ایجنڈا میں موجود رخنوں کو دور کرنا
اشتراکات و تعاون
• بین الاقوامی تحقیقی نظام
• صوبائی تحقیقی نظام
خدمات :
صوبائی نظام کو خدمات
• بیجوں (جرم پلازم) کا تحفظ اور فراہمی
• زرعی اطلاعیات (انفارمیٹکس)
• انسانی وسائل کی ترقی
خدمات
• گرین کوالٹی ٹیسٹنگ لیب
• نظامت سائنسی معلومات و اشاعت
• خدمات-سبزی پروگرام
تحقیقی تحرکات:
پیداواریت میں بہتری
• بائیوٹیکنالوجی اور مالیکیولر جنیٹکس کو بروئے کار لاتے ہوئے فصلات اور جانوروں کی جنیاتی بہتری
• علم وبائی امراض اور فصلات اور جانوروں کے حشرات اور وبائی امراض کی تشخیص و* تدارک
• کاشت، برداشت اور پروسیسنگ کے لیے آلات و مشینری کی تیاری اور بہتری، قدر افزونی (ویلیو ایڈیشن)
قدر افزوں (ہائی ویلیو) زراعت
• باغبانی، گلہ بانی اور ماہی پروری میں تنوع
• مویشیوں کی خوراک اور اس کی ٹیکنالوجیوں میں بہتری
• کیٹ فش کی نسل کشی اور تازہ پانی کی مچھلی کارپ میں جنیاتی بہتری
بعد از برداشت اور قدری زنجیر (ویلیو چین) ٹیکنالوجیاں
• نئی مصنوعات، ٹیکنالوجیاں اور طریقہ کار وضع کرنا ، اور بین الاقوامی معیارات/ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے حکمت عملی
• ملکیت دانش حقوق (Intellectual Property Rights) کے لیے جینیاتی معلومات اور ڈیٹا فراہم کرنا
وسائل کا پائیدار استعمال اور ماحولیاتی تحفظ
• تحفظِ وسائل کی ٹیکنالوجیاں تیار ی اور فروغ
• بڑی فصلات کے نظام کے لیے مربوط تغذیاتی انتظام اور مربوط انصرامِ ضار(IPM) کے ماڈل وضع کرنا
• خوراک کی زنجیر اور ماحولیات میں زرعی کیمیائی اجزا کے اثرات /باقیات کا کھوج
• اعلی مستعدی نظامِ آب وضع کرنا
انصرام معلومات و فروغ:
1. ادارہ کثیر الفنون (Poly Technique)برائے زراعت
2. نظامتِ سائنسی معلومات و اشاعت (DSC)
سہولیات:
• تحقیقی تجزیہ گاہیں (Research Labs) 58
• قومی جینیاتی بنک 01
• قومی کتب خانہ برائے زرعی علوم 01
• قومی نبات خانہ (National Herbarium)ٍٍٍ 01
• جائے تحفظ برائے نباتات (Botanical Conservatory) 01
• قومی نمائش گھر برائے حشرات(National Insect Museum) 01
• تجزیہ گاہ برائے معیارِ بیج (Grain Quality Testing Lab) 01
• سماعت گاہ (آڈیٹوریم) 01
• قیام گاہیں (ہاسٹل) 03
• ورکشاپیں 04
• کل رقبہ 565 ہیکٹر
• کاشتہ/مستعملہ رقبہ 465 ہیکٹر
• تعمیرات 100 ہیکٹر
تحقیقی ادارے :
1. ادارہ برائےزرعی انجینئرنگ (AEI)
2. ادارہ برائے علوم حیوانات (ASI)
3. ادارہ برائے تحفظِ حیاتیاتی وسائل(BCI)
4. تحقیقی ادارہ برائے موسم، توانائی و آب(CEWRI)
5. تحقیقی ادارہ برائے امراضِ فصلات(CDRI)
6. ادارہ برائے علومِ فصلات(CSI)
7. تحقیقی ادارہ برائے علومِ خوراک(FSRI)
8. تحقیقی ادارہ برائے مگس بانی(HBRI)
9. تحقیقی ادارہ برائے باغبانی(HRI)
10. ادارہ برائے تحفظِ ماحولیات و نباتات(IPEP)
11. تحقیقی ادارہ برائے ارضی وسائل(LRRI)
12. قومی ادارہ برائے جینومکس واعلی حیاتیاتی ٹیکنالوجی (NIGAB)
13. تحقیقی ادارہ برائے چراہ گاہ(RRI)
14. تحقیقی ادارہ برائے علومِ سماجیات
نمایاں کامیابیاں :
رابط :
ڈاکٹر غلام محمد علی، ڈائریکٹر جنرل قومی زرعی تحقیقاتی مرکز، اسلام آباد
فون دفتر:051-9255028،
فیکس نمبر:051-9255034 ،
ای میل:drgmali5@gmail.com